اپنے ہی کناروں کو میرے دیدہ ء تر کاٹ
اڑنے کا وسیلہ ہیں امیدوں کے نہ پر کاٹ

اک بنک کے لاکر میں تری عمر پڑی ہے
شب کاٹ اگر Ù„ÛŒ ہے تو بے مہر سØ+ر کاٹ

ہر سمت دماغوں کے شجر اگنے لگے ہیں
اس مرتبہ پودوںکے ذرا سوچ کے سر کاٹ

اُس شہرِ سیہ پوش کی تسخیر سے پہلے
آ خانہ ء درویش میں بس ایک پہر کاٹ

منصور نکلنا تو ہے مٹی کی گلی سے
لیکن ابھی کچھ اور یہ سورج کا سفر کاٹ